Thursday, November 27, 2014

تیل کی قیمت میں ریکارڈ کمی

  

تیل کی عالمی قیمتوں اور بین الاقوامی سیاسی صورت کے پس منظر میں اوپیک اجلاس میں غیر معمولی دلچسپی پائی جاتی تھی

تیل برآمد کرنے والے ملکوں کے اجلاس میں پیداوار کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے فیصلے سے عالمی منڈی میں جمعرات کو تیل کی قیمت گذشتہ چار برس میں اپنی کم ترین سطح (ستر ڈالر فی بیرل) تک گر گئی۔

اوپیک کے اجلاس کے بعد سعودی عرب کے تیل کے وزیر علی النعیمی سے جب یہ پوچھا گیا کہ اوپیک تیل کی پیدوار کم نہیں کر رہا تو انھوں نے کہا بالکل یہی فیصلہ ہوا ہے۔ اوپیک کے ممالک دنیا کی تیل کی کل پیداوار کا تیسرا حصہ پیدا کرتے ہیں۔

اوپیک کا اجلاس پانچ گھنٹوں تک جاری رہا اور اس کا فیصلہ سامنے آتے ہی خال تیل کی دونوں بڑی اقسام برنٹ کُروڈ اور یو ایس کُروڈ کی قیمتیں نیچے جانے لگیں اور سرمایہ کاروں کو تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جاری قیمتوں کی جنگ یا ’پرائس وار‘ کا پیغام ملا۔

برنٹ کی قیمت 71.58 ڈالر فی بیرل پر آ گئی اور یوایس کروڈ کی قیمت گر کر 68.20 ڈالر فی بیرل پر آ گئی۔ ان دونوں کی قیمتوں میں ایک دن میں پانچ ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی ہے جو مئی سنہ 2011 کے بعد ایک دن میں سب سے زیادہ کمی ہے۔

نیویارک میں انرجی مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈومن سرلیکلیا نے روئٹرز کو بتایا کہ ’تیل کی قیمتیں اب مکمل طور پر مارکیٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔‘

اوپیک نے تیل کی پیداوار کو موجود سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا

اوپیک کے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ بارہ ملکوں پر مشتمل اس تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ پیداوار کو تین کروڑ بیرل یومیہ پر برقرار رکھا جائے گا جو کہ گذشتہ تین سال سے اسی سطح پر ہے۔

آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والے اس اجلاس سے پہلے غریب رکن ملکوں مثلا وینزویلا اور ایکواڈور کی طرف سے تنظیم پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ پیداوار میں کمی کرنے کا اعلان کرے تاکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو سہارا دیا جا سکے۔

لیکن تیل پیدا کرنے والے بڑے ملکوں نے پیداوار میں کمی کی تجاویز کو رد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کو امریکہ جیسی مارکیٹ میں اپنے حصے کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی وہ تیل کی پیداوار کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امریکہ میں شیل راک تیل کی وجہ سے سستا تیل وافر مقدار میں دستیاب ہے اور جس سے عالمی طلب پر اثر پڑا ہے۔

خام تیل کی قیمتوں میں اس سال جون سے 35 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور ڈالر کی قدر میں اضافے اور عالمی معیشت میں توانائی کی مانگ کے کم ہونے کے خیال کی وجہ سے بھی تیل کی مانگ نسباتاً کم رہی ہے۔

توانائی کے بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا رحجان سنہ دو ہزار پندرہ میں جاری رہے گا۔

تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عالمی کساد بازاری کے خدشات خاص طور پر یورپی یونین کے ملک میں بڑھ گئے ہیں۔

گرتی ہوئی قیمتیں صارفین کے لیے اچھی خبر ہیں لیکن کساد بازاری کی وجہ سے ایک پورا چکر شروع ہو سکتا ہے جس میں تجارتی ادارے خریداری کم کر دیں گے اور طلب میں کمی واقع ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اوپیک کے اجلاس سے قبل سعودی عرب نے امریکی خریداروں کے لیے تیل کی قمیت مزید کم کردی۔ سعودی عرب کی طرف سے یہ اقدام بظاہر امریکی مارکیٹ میں شیل تیل کے مقابلے میں اپنے حصہ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں کیا گیا۔

BBC Urdu

No comments:

Post a Comment