مجھے زندگی سے بھرپور شخص بہت اچھے لگتے ہیں چنانچہ میں جب کبھی ان کے بارے میں لکھتا ہوں، کبھی کبھی سر اٹھانےوالی میری مردہ دلی بھی زندہ دلی میں تبدیل ہوجاتی ہے لیکن آج مجھے احمد عقیل روبی کے حوالے سے کالم لکھنا ہے۔ جس کے انگ انگ میں زندگی کی لہر دوڑتی محسوس ہوتی تھی مگر میںقلم ہاتھ میں پکڑتے ہی اداسی کی زد میں آگیا ہوں کیونکہ یہ شخص مجھے چھوڑ کرچلاگیا ہے اور وہاں گیا ہے جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ احمد عقیل روبی کا اصل نام غلام حسین سوز تھا بالکل اسی طرح جس طرح احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز کا اصل نام احمدشاہ تھا۔ روبی کو میں پڑھتا تو بہت عرصے سے چلا آرہا تھالیکن اس کی شخصیت کو پڑھنے اور پرکھنے کا موقع مجھے ایف سی کالج میں میسرآیا جہاں وہ صدرشعبہ اردو تھااور میں بھی اسی شعبے سے وابستہ تھا۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ کچھ افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صدر شعبہ بن جائیں، کالج کے پرنسپل بن جائیں یا سیکرٹریٹ میں کسی انتظامی عہدے پر فائز ہو جائیں۔ اس طرح کے لوگ اس طرح کی پوسٹوں کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں مگراحمد عقیل روبی جب صدرشعبہ بنا تو میں نے محسوس کیا کہ اس سے اس کی ’’ذہنی صحت‘‘پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اپنےکولیگز کے ساتھ اس کا رویہ پہلے سے زیادہ دوستانہ ہو گیا۔ ایک تو اس کا دل بنا ہی موم کا ہواتھا ذرا سی بات پر پگھل جاتا تھا اور دوسرے اس کے ذہن میں غالباً یہ خیال بھی در آیا تھا کہ کہیں اس کی کسی بات کو اس رنگ میں نہ لیا جائے کہ موصوف صدر شعبہ بن کے خود کو کچھ سمجھنے لگ گئےہیں۔ لیکن یہ تو اس کی شخصیت کا تقریباً ناقابل ذکر پہلو ہے۔ وہ تو سراپا محبت تھا۔ لوگوں میں خوبیاں تلاش کرتا تھا اور ان کی خامیو ںکو نظرانداز کرتا تھا۔ ہر حال میں خوش رہتا تھا اور دوسروں میں بھی خوشیاں بانٹنے میں لگا رہتا تھا۔ میں اسے بنیادی طور پر ایک داستان گو سمجھتا ہوں۔ وہ ایک عام سی بات کو داستان کا رنگ دیتاتھا۔ جب وہ گفتگو کر رہا ہوتا تو مجھے لگتا جیسے داستان گوئی کا فن نسل در نسل اس تک منتقل ہوا ہے۔ اس کے سامنے قصہ سننے والے دم بخود بیٹھے ہیں، آگ کا الاؤ جل رہا ہے اور داستان گو مزے لے لے کر داستان در داستان بیان کرتا چلا جارہا ہے۔ چنانچہ اس نے نصرت فتح علی خان، ناصر کاظمی، سجاد باقررضوی اور دوسرے مشاہیر پر شخصی خاکوں پرمشتمل جو کتابیں لکھیں، پڑھنےوالا خود کو ان شخصیتو ں کے درمیان بیٹھا، ان سے باتیں کرتا، ان کی باتیں سنتا اور ان کے ساتھ خود کو چلتا پھرتا محسوس کرتاہے۔ احمد عقیل روبی ماضی کو حال میں تبدیل کرنے کا فن جانتا تھا۔ اسے سننے والا اور اسے پڑھنے والا خود کو اورئنٹل کالج میں اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ڈاکٹر سید عبداللہ کا لیکچر سنتا، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، مسعود اشعر، ناصر کاظمی، شہرت بخاری، ظہیر کاشمیری اوراحمد مشتاق کے ساتھ گپ شپ کرتا اور اس کے ساتھ ہنستا اور روتا دکھائی دیتا۔ میں نہیں سمجھتا کسی کی زندگی میں اتنےدکھ ہوں گے جتنے دکھ احمد عقیل روبی کو سہنےپڑے۔ 1947 میں مشرقی پنجاب سے پاکستان آتے ہوئے صرف وہ اوراس کی ماں زندہ بچے تھے اور اس عظیم ماں نےمشقت کرکے غلام حسین سوز کو احمد عقیل روبی بنا دیا۔ اگر کبھی موقع ملے تو ’’غلام حسین سوز‘‘ پر احمد عقیل روبی کا لکھا ہوا خاکہ ضرور پڑھیں جو عقیل عباس جعفری نے فیس بک پر شیئر کرکے ہم سب پر احسان کیاہے۔ مگر عقیل روبی اپنی زندگی کے دکھوں کی بجائے زندگی کی دی ہوئی خوشیوں میں مگن رہا۔ البتہ جب اس نے تحریک پاکستان کے حوالے سے پی ٹی وی کے لئے ڈرامہ سیریل تحریر کیا تو وہاں اس نے ہمیں یہ سمجھانے کی ضرور کوشش کی کہ اس سرزمین کی قدر کرو۔ یہ سرزمین ہم نے بہت قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کی ہے۔ عقیل روبی صحیح معنوں میں ایک سکالر تھا۔ اس نے ناول بھی لکھے، خاکے بھی لکھے، شاعری بھی کی، فلموں کے لئے لازوال گیت بھی تخلیق کئے، ٹی وی ڈراموں میں بھی نام کمایامگراس کے ساتھ ساتھ اس نے خالص علمی خزانوں سے بھی اردو ادب کو مالامال کردیا۔ اس کاغیرملکی ادب کا مطالعہ حیرت انگیز تھا۔ غیرملکی ادب کامطالعہ اور بھی بہت سے لوگ کرتے ہیں مگروہ دوسروں کو اس کی ہوا تک نہیں لگنےدیتے جبکہ روبی نے جو پڑھا، اس میں ہم سب کو بھی شریک کیا۔ یونانی فلاسفر خصوصاً اس کی دلچسپی کا مرکز تھے۔ بلکہ میں اسےچھیڑا کرتا تھا کہ تم جب بازار سے سبزی لینے جاتے ہوگے تو تم یقیناً دکاندار کو پہلے ضرور بتاتے ہوگئے کہ سقراط کدو، حلوہ کدو، آلو اور بینگن کو ریاست کے لئے مضر خیال کرتا تھا یا اسے ایک صحت مند علامت سمجھتا تھا۔ بہرحال ، حال ہی میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے روبی کی معرکتہ الآرا کتاب ’’علم فلسفہ کے معمار‘‘ کا تازہ ایڈیشن نہایت خوبصورت انداز میں شائع کیالیکن عقیل روبی اپنی اس کتاب کی نئی ہیئت دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گیا! گزشتہ دنوں مجھے خیال آیا کہ عقیل سے ملاقات کو بہت دن گزر گئے ہیں کوئی سبیل نکالنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے اسے فون کیا۔ بیل جاتی رہی مگر اس نےاٹھایا نہیں۔ دو دن بعد میں نے پھر فون کیا۔ دوبارہ اسی طرح ہوا چنانچہ میں نے سوچا کہ میں اس کے گھر جاتا ہوں مگر گزشتہ روز ناصر بشیر نے اطلاع دی کہ عقیل روبی کینسر کا شکار ہو کر فوت ہوگئے ہیںاور آج دوپہر کو ان کا جنازہ ہے۔ میں جوہرٹاؤن پہنچا۔ شہر کے سارے ادیب اور عقیل روبی سے محبت کرنے والے بہت بڑی تعداد میں وہاں سوگواری کے عالم میں کھڑے تھے۔ میں اس کے آخری دیدار کے لئے آگے بڑھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے اس کے ہونٹ بھی ہلتے محسوس ہوئے اور مجھے لگا وہ داستان گوئی کر رہا ہے اور آج جو داستان وہ سنارہا ہے وہ اس کی اپنی داستان ہے! میں آپ کو وہ داستان نہیں سناؤں گا۔ یہ صرف میرے اوراس کے درمیان ہی رہے گی لیکن میں نے اس کے کان میں ہولے سے جو بات کہی وہ یہ تھی کہ’’احمد عقیل روبی ! تم ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ تمہاری ماں عظیم عورت تھی۔ تمہاری بیوی ایک مثالی بیوی ثابت ہوئی جس نے ہر قدم پر تمہارا ساتھ دیا۔ تم نے لوگوں کو علم کی دولت سے مالامال کیا۔ انہیں ناول دیئے، خاکے دیئے، شاعری دی، فلمی گیتوںکا پرانا معیارواپس لائے۔ تم اس کے علاوہ ایک اعلیٰ درجے کے مثالی انسان تھے مگر کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تم ان سب نعمتوں سےبہرہ ور ہونے کی بجائے صرف ایک تھرڈ کلاس ایکٹر ہوتے تاکہ تمہارے مرنے پر پورا میڈیا سوگ میں ڈوب جاتا اور ہر سال تمہاری برسی پر خصوصی پروگرام نشرہوتے۔ …۔ تم پر افسوس ہے احمد عقیل روبی! تم نے زندگی میں سارے گھاٹے کے سودے کئے اور مرنے کے بعد بھی تم خسارے ہی میںرہے۔ تم سے کس نے کہا تھا کہ ایسا شعبہ اختیار کرو جس کی کل اوقات اخبار کی سنگل کالمی خبر سےزیادہ نہیں ہوتی! ‘‘
No comments:
Post a Comment