ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
کاشت کار اختر زمان ایک ایسے نئے پاکستان کے خواہش مند ہیں جہاں انھیں فصل کے اچھے دام ملے سکیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام صرف عمران خان ہی کر سکتے ہیں۔
کراچی میں نمائش چورنگی پر دوپہر کو موجود تحریک انصاف کے چند درجن کارکنوں اور ہمدردوں میں اختر زمان بھی شامل تھے، جن کی رہائش لالو کھیت میں ہے۔
50 سالہ باریش اختر زمان بتاتے ہیں کہ گذشتہ برس چاول کی فصل 29 سو روپے من فروخت ہوئی تھی اور آج 12 سو روپے من میں کوئی لینے کو تیار نہیں وہ اس لیے جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہیں تاکہ نیا پاکستان بنے اور انھیں ان کا حق مل سکے۔
’اس سے پہلے جو بھی لوگ آئے ہیں وہ کھانے والے ہیں ایک بار زرداری آتا ہے تو دوسری بار نواز شریف، اب عمران خان آئے گا تو ہم اس کے لیے پوری جان کی بازی لگائیں گے۔
‘
شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار کے سامنے موجود نمائش چورنگی پر دوپہر تک دھرنے کے شرکا کی تعداد درجنوں میں تھی، جبکہ پولیس نے دھرنے سے کئی فرلانگ دور سڑک کو بند کر دیا تھا۔
لطیف خان دھرنے کے قریبی علاقے پٹیل پاڑہ سے دھرنے میں آئے تھے، ان کی تیل کی دکان ہے۔ وہ ہڑتال سے تو اتفاق نہیں کرتے لیکن اب جمعیت علمائے اسلام کی بجائے تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ جس کی وجہ وہ سیاسی نظریہ یا پروگرام نہیں بلکہ قومیت بتاتے ہیں۔ بقول ان کے عمران پٹھان ہیں، خان صاحب ہے، اس کے دیدار کے لیے آئے ہیں۔
سندھ کے محکمۂ تعلیم نے تعلیمی ادارے کھلے رکھنے کا اعلان کیا تھا، لیکن حاضری کم ہونے کے باعث طلبہ کو واپس لوٹنا پڑا جبکہ جامعات نے اپنے پرچے ملتوی کر دیے تھے۔ دھرنے میں پیٹھ پر بیگ لٹکائے ہوئے بی ایس فائنل ایئر کے طالب علم منصور احمد بھی آئے ہوئے ہیں۔ ان کا پرچہ بھی ملتوی ہو گیا ہے، لیکن اب انھیں خوشی ہے کہ وہ اس احتجاج میں شریک ہو سکے ہیں۔
منصور احمد کا خیال ہے کہ عمران خان تبدیلی لے کر آ رہے ہیں اور اگر انھوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو تبدیلی آنا ممکن نہیں
اور آنے والی نسلیں زرداری اور نواز شریف کی غلام ہوکر رہ جائیں گی۔
’میرے خیال میں تبدیلی یہ ہے کہ اگر کوئی رہنما سچ کہہ رہا ہو اور ظلم کے خلاف بول رہا ہو تو ہمیں اس کے لیے باہر آنا چاہیے اگر ظلم سہتے رہے تو تبدیلی کبھی نہیں آ سکےگی اور ہمارے حالات بدتر ہوتے چلے جائیں گے بالآخر ایک دن افریقی ممالک جیسی حالت ہو جائے گی۔
نمائش چورنگی اور نیٹی جیٹی پل پر دھرنوں میں اکثریت پشتون نوجوانوں کی نظر آئی جبکہ خواتین کی تعداد تحریک انصاف کے روایتی احتجاجوں سے کم تھی۔
نمائش چورنگی سے ٹاور تک ایم اے جناح روڈ پر کئی تجارتی مراکز اور ہول سیل مارکیٹیں ہیں، جن کے باہر موجود دکاندار اس کشمکش میں مبتلا رہے کہ کاروبار کھولا جائے یا نہیں۔ جامعہ کلاتھ اور بولٹن مارکیٹ میں کچھ دکانداروں نے کاروبار کھولا لیکن خریدار لاپتہ تھے۔
بولٹن مارکیٹ میں کامران نامی کپڑے کے ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ وہ دکانیں کھولنا تو چاہ رہے ہیں لیکن کھول نہیں پا رہے۔ صبح کو جب کچھ دکانیں کھلیں تو کچھ لڑکے آئے اور کہا کہ کاروبار بند کرو۔ یہ کون تھے، وہ کسی کا نام نہیں لے سکتے۔
بولٹن مارکیٹ، پلاسٹک مارکیٹ سمیت کئی مارکیٹیں سنہ 2009 میں عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے کے بعد نذر آتش کردی گئی تھیں، جس کے بعد دکاندار محتاط نظر آتے ہیں، ان مارکیٹوں کے سامنے ہی پولیس تھانہ بھی موجود ہے۔
دکاندر محمد حنیف کا کہنا ہے کہ تھانہ سامنے ہے لیکن وہاں سے انھیں ایسا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے کہ ان کے آسرے پر کاروبار کھولیں یا بند کرلیں۔ ویسے بھی وہ ہڑتالوں میں رسک نہیں لیتے۔
’کراچی میں بڑے عرصے سے ہڑتالیں دیکھ رہے ہیں لیکن اس کا حاصل تو کچھ نہیں، الٹا نقصان بہت دیکھا ہے، صبح کو جب گھر سے نکلے تو یہ یقین نہیں تھا کہ دکانیں بند ہوں گی لیکن جب یہاں آئے تو ساری مارکیٹیں بند ہیں۔
‘
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ شہر میں 40 مقامات پر دھرنے دیے گئے ہیں، بولٹن مارکیٹ سے کچھ فاصلے پر نیٹی جیٹی پل پر بھی تحریک انصاف کا دھرنا جاری تھا، اسی سڑک سے کراچی بندرگاہ سے اندرون ملک سامان کی نقل و حرکت ہوتی ہے لیکن وہ بھی معطل رہی۔
دو کروڑ آْبادی کے اس شہر میں احتجاجی دھرنوں میں دوپہر تک کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد تو نظر نہیں آئی، تاہم تحریک انصاف معمولاتِ زندگی اور تجارتی سرگرمیاں مفلوج بنانے میں ضرور کامیاب ہوئی ہے۔
تحریک انصاف کی جانب حکومت سندھ کا مثبت اور دوستانہ رویہ بھی دیکھا گیا، صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام کا کہنا ہے کہ جبری کاروبار بند کرانا درست نہیں حکومت کی پوری کوشش ہے کہ فیصل آباد جیسے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
No comments:
Post a Comment