وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
فیصل آباد میں کل (سوموار) جو کچھ ہوا اس پر میرے محلے کے عبداللہ پنواڑی نے آج صبح یہ تبصرہ کیا:
’بھائی جان یہ شریفے جیسے حکومت چلا رہے ہیں ویسے تو میں اپنا کھوکھا بھی نہیں چلاتا۔ اگر مسئلہ حل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے اور خراب کر دیا جائے تو میری جان پھر مجھے ہی چیف منسٹری دے دو۔ میں اس سے زیادہ خراب کر کے دکھا دوں گا۔
’بھائی یہاں کراچی میں روزانہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی دھرنا چل رہا ہوتا ہے، کسی سڑک پر ٹائر جل رہے ہوتے ہیں، کسی چوک پر چار لونڈے ٹریفک روکنے کے لیے ڈنڈے لے کر کھڑے ہوتے ہیں، کوئی بھی پارٹی کبھی بھی اٹھ کے ہڑتال کی کال دے دیتی ہے، کبھی پورا شہر بند ہو جاتا ہے تو کبھی آدھا۔ لوگ خود ہی نعرے مار کے، ٹائر بجھا کے، گلے بٹھا کے، تھک تھکا کے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور اگلے روز پھر کوئی نیا آدمی یا گروپ یہی سین پاٹ شروع کر دیتا ہے۔
’اتنی ہڑتالوں، بے چینی، دھرنوں اور سڑک بند ہونے کے باوجود بھی شہر چلتا رہتا ہے۔ کیونکہ یہاں کی پولیس کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ بے فضول تھکنے کی ضرورت نہیں۔ بس گورنر ہاؤس اور چیف منسٹر ہاؤس جانے والی سڑکیں کنٹینروں سے بند کر دو ۔باقی شہر میں لوگ باگ چند گھنٹے کھیل تماشا کریں گے اور منتشر ہو جائیں گے۔
’اب اگر پولیس والے ہر دھرنے یا ریلی یا روڈ بلاک کرنے والوں پر ڈنڈے برسانے لگیں گے اور پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے حمایتی ایک دوسرے پر پتھراؤ شروع کر دیں گے تو آگ تو لگے گی نا۔ اس لیے کراچی میں اب حکومت نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ نہ کسی کو روکنا ہے اور نہ ہی دکھائی دینا ہے۔ بھائی جب سامنے کوئی پتھر کھانے والا ہی نہیں ہوگا تو میں پتھر کسے ماروں گا؟ کیا پنجاب حکومت کو یہ سامنے کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی؟‘
مجھے نہیں معلوم کہ آپ عبداللہ پنواڑی کی بات کو کتنا سنجیدگی سے لیں گے۔ لیکن شریف حکومت وفاق اور پنجاب میں جس طرح کرائسس مینجمنٹ کر رہی ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف تو اسلام آباد میں تین ماہ سے دھرنا برداشت کرتے ہوئے عدم تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں کسی بھی ہڑتال کی کال کو غیرت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے، اور کسی بھی سطح پر یہ بھی طے نہیں کیا جا رہا کہ مکمل طاقت استعمال کرنی ہے یا مکمل عدم تشدد کی پالیسی اپنانی ہے۔
جب دونوں حکمتِ عملیاں ایک دوسرے سے خلط ملط ہوجائیں اور معاملہ سلجھانے کی ذمہ داری کسی ایک فرد کے بجائے درجن بھر افلاطون اور ارسطو اپنے اپنے ذمے لے لیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو کل فیصل آباد میں ہوا۔
حکومت کو تحریکِ انصاف نے اپنی ہی پچ پر ایسے کھلوایا کہ حکومت کے پاس فالوآن کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اگر حکومت اپنے اوسان قابو میں رکھتی، اضافی پولیس نہ بلواتی، مسلم لیگ کے کارکنوں کو سامنے نہ آنے کی سخت ہدایت کرتی۔ ’اوئے انصافیو تمھیں دیکھ لیں گے‘ اور ’آآآآآ بکری باہر نکل‘ ٹائپ بڑھکیں نہ مرواتی۔
گھبراہٹ کے عالم میں ٹی وی پر حکومتِ پاکستان کے پیسے سے عمران مخالف اشتہارات کی کروڑوں روپے کی بارش نہ کرتی تو یہ بات یقینی تھی کہ مسلم لیگ ن کے گڑھ فیصل آباد میں تحریکِ انصاف کی ہڑتال جزوی طور پر کامیاب ہوتی اور کوئی آسمان نہ ٹوٹ پڑتا۔
لیکن اڑتے تیر کے سامنے پشت کرنے کی لت کا کیا علاج؟ صوبائی حکومت نے نہ صرف تحریکِ انصاف کا شو کامیاب کروانے کے لیے غیر معمولی محنت کی بلکہ چینلوں پر بدامنی کی لائیو کوریج سے ایک معمول کے احتجاج کو غیر معمولی بنوا دیا اور تحریک ِ انصاف کو بطور بونس ایک لاش بھی تھموا دی۔
غرض اتنا ایندھن جمع کرکے عمران خان کے حوالے کر دیا کہ تحریکِ انصاف کا ایجی ٹیشن اگلے کئی دنوں کے لیے مالا مال ہوگیا۔ خدا ایسی حکومت ہر اپوزیشن کو دے (آمین)۔
تو کیا میں پنجاب کے حالات پر قابو پانے کے لیے عبداللہ پنواڑی کو لاہور جانے پر آمادہ کروں؟
No comments:
Post a Comment